انسانی حقوق کی تنظیم "فلسطین ۔ شام ایکشن گروپ" نے اطالوی حکومت کے ایک ذمہ دار ذریعے کے حوالے سے بتایا ہے کہ گذشتہ بدھ کو مصرسے آنے والی ایک مسافر کشتی جس میں بیشتر افراد فلسطینی شہری تھے کھلے سمندر میں ڈوب گئی ہے۔ اطالوی امیگریشن حکام کا کہنا ہے کہ رواں سال کے آغاز میں اب تک دنیا کے مختلف خطوں سے غیرقانونی طور پر بحر متوسط اور بحر ابیض کے راستے ایک لاکھ افراد اٹلی پہنچے ہیں۔
انسانی حقوق کی تنظیم کی جانب سے جاری ایک بیان بتایا گیا ہے کہ 24 اگست سے 15 ستمبر تک سمندر میں موسم نہایت خراب رہا۔ اس دوران کئی بحری جہازوں اور کشتیوں کو حادثات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ انہی میں فلسطینی، شام اور بعض دوسرے ممالک کے شہریوں کو لانے والی ایک کشتی بھی شامل ہے جو گذشتہ بدھ کے روز کھلے سمندر میں ڈوب گئی۔ کشتی میں400 فلسطینی شہریوں سمیت دیگر ممالک کے کل 700 افراد سوار تھے۔
قبل ازیں اقوام متحدہ کے ہائی کمیشن کی جانب سے جاری ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ رواں سال غیرقانونی طور پر ترک وطن کرنے والے 1900 افراد لقمہ اجل بن گئے ہیں۔ مرنے والے تمام افراد بحر متوسط سے گذر رہے تھے جہاں ان کی کشتیاں
حادثات کا شکار ہوئی ہیں۔ ان میں رواں سال جون کے بعد سے اب تک 1600 افراد بھی شامل ہیں جو غیرقانونی طو پر نقل مکانی کرتے ہوئے سمندر میں غرق ہوگئے۔ مجموعی طور پر اس سال تین ہزار غیرقانونی تارک وطن حادثات میں مارے گئے۔
عالمی ادرے کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ شام اور فلسطین میں جاری کشیدگی اور جنگوں کے نتیجے میں شہری ملک چھوڑنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔ شام اور لبنان میں موجود فلسطینی پناہ گزین کیمپوں میں بد نظمی اور پناہ گزینوں کو امداد نہ ملنا بھی شہریوں کی نقل مکانی کا ایک اہم سبب ہے۔ پچھلے ایک سال سے شام اور بعض دوسرے ممالک میں پناہ گزین کیمپوں میں رہنے والے 23 ہزار 935 فلسطینی باشندے یورپ اور دوسرے ملکوں کی طرف جانے پر مجبور ہوئے ہیں۔ ان میں چار سو فلسطینی حال ہی میں مصر کے ایک کشتی کے ذریعے 06 ستمبر کو اٹلی کی جانب روانہ ہوئے۔ یہ تمام شہری غزہ کی پٹی سے نقل مکانی کرکے مصر پہنچے تھے جہاں سماج دشمن عناصر نے انہیں یورپ کے سہانے خواب دکھا کر کشتی میں بٹھایا اور یونان کی طرف سفر شروع کردیا۔ گذشتہ بدھ کو یہ کشتی اٹلی کے ایک کھلے سمندر میں حادثے کا شکار ہوئی اور اس میں سوار بیشتر افراد ڈوب گئے تھے۔